Get out of the world of assumptions.
(قاسم علی شاہ)
ڈاکٹر مارٹن سیلگ مین ایک ممتاز ماہر نفسیات، مصنف اور محقق ہیں۔ انہیں "مثبت نفسیات" کا بانی سمجھا جاتا ہے۔ انسانی رویے اور جذبات پر ان کی تحقیق کو بین الاقوامی سطح پر پذیرائی ملی ہے۔ 1967 میں، اس نے " سیکھی ہوئی بے بسی" کا نظریہ پیش کیا۔
اس فلسفے کے مطابق جب کوئی فرد بار بار ناکام ہوجائے تو ایک وقت کے بعدوہ کوشش کرنا چھوڑ دیتا ہے اگرچہ حالات سازگار کیوں نہ ہو جائیں۔ اس بنیاد پر انھوں نے ایک تجربہ کیا۔ انھوں نے چند کتوں کو ایک پنجرے میں بند کیا اور انھیں بجلی کے ہلکے جھٹکے دیے۔ کتوں نے نکلنا چاہا لیکن باہر جانے کاراستہ نہیں تھا۔ دوسری مرتبہ انھی کتوں کو پنجرے میں بندکرکے ان پر بجلی چھوڑدی گئی، اس بار باہر جانے کاراستہ کھلا چھوڑ دیا گیا تھا لیکن حیرت انگیز طورپر کتے باہر نہیں گئے اور بجلی کے جھٹکے برداشت کرتے رہے۔ اس تجربے نے انسانی نفسیات کے میدان میں تہلکہ مچا دیا۔ ڈاکٹر سیلگ مین نے اپنے نظریے کو انسانوں پر لاگو کیا تو انھیں معلوم ہوا کہ مسلسل ناکامی، گھریلو تشدد یا معاشی مسائل میں مبتلا افرادایک وقت کے بعد خود کو بے بس محسوس کرتے ہیں اور موقع ہونے کے باوجود اپنے حالات بدلنے کی کوشش نہیں کرتے۔
ہمارامعاشرہ بھی ”سیکھی ہوئی بے بسی“کا شکار نظر آتا ہے۔ یہاں آپ کو ایسے بے شمار افراد نظر آئیں گے جو بے بسی کا شکار ہوچکے ہیں۔ وہ ایسی باتوں پر یقین کرتے ہیں جو حقیقت نہیں ہوتیں، دراصل یہ لوگ مفروضے(Myth) میں مبتلا ہوتے ہیں۔ یہ وہ غلط فہمیاں یا فرضی عقائد ہیں جو بظاہر سچ لگتے ہیں لیکن دراصل انسان کے عمل اور ترقی کی راہ میں رکاوٹ بن جاتے ہیں۔مفروضہ ایسا تصور ہے جو عوامی رویے سے جنم لیتا ہے لیکن حقیقت کی کسوٹی پر پورا نہیں اترتا۔ یہ تصور سنی سنائی باتوں، پرانی روایات یا ناکامی کے خوف پر مبنی ہوتا ہے۔
ہمارے ہاں بیشتر افراد زندگی میں آگے بڑھنے، فیصلہ کرنے یا خواب پورے کرنے کے بجائے جھوٹے اور غیرحقیقی تصورات کا سہارا لیتے ہیں۔ یہ دراصل ان کے ذہن کے دفاعی ہتھیار بن جاتے ہیں، جو انھیں عمل سے بچنے کا ایک نفسیاتی راستہ فراہم کرتے ہیں۔
مفروضوں کے جال میں پھنسنے والے لوگوں کی پہلی قسم وہ ہے جوخوف زدہ رہتے ہیں۔ یہ لوگ ناکامی یا نئے تجربات سے ڈرتے ہیں۔ یہ سمجھتے ہیں کہ کامیابی صرف خوش نصیبوں کو ملتی ہے اس لیے خطرہ مول لینا حماقت ہے۔ اس طرح وہ خود کو محفوظ رکھنے کے لیے عمل سے گریز کرتے ہیں اور مفروضوں کا سہارا لیتے ہیں۔
دوسری قسم کے لوگ وہ ہیں جو سماجی دباؤ کے زیرِ اثر زندگی گزارتے ہیں۔ ان کے لیے ”لوگ کیا کہیں گے؟“ بڑی رکاوٹ بن جاتی ہے۔ وہ سماج کی سوچ سے ہٹ کر کچھ کرنے سے گھبراتے ہیں، اس لیے وہ ایسے مفروضے قبول کر لیتے ہیں جو ان کی متحرک زندگی کو جواز دے سکیں۔
تیسری قسم کے لوگ وہ ہیں جو سستی میں مبتلا ہوتے ہیں۔ یہ لوگ اپنی کاہلی کو حالات، نصیب یا کسی اور خارجی سبب پر ڈال کر خود کو مطمئن کرتے ہیں کہ کامیابی ہمارے مقدر میں نہیں ہے۔
چوتھی قسم کے لوگ وہ ہیں جنھیں بچپن سے ہی کچھ غلط نظریات سکھا دیے جاتے ہیں۔جیسے: ”غریب کا بچہ کبھی افسر نہیں بن سکتا۔“ یہ مفروضے ان کے ذہن میں اتنے رچ بس جاتے ہیں کہ فرد انھیں سچ سمجھ کر اپنی صلاحیتیں دبا دیتا ہے۔
پانچویں قسم کے لوگ ہیں جو ناکامی کے بعد ہار مان لیتے ہیں۔ وہ خود کو تسلی دینے کے لیے کہتے ہیں: ”شاید یہ میرے نصیب میں نہیں تھا۔“ یوں وہ دوبارہ کوشش کرنے کے بجائے مایوس ہوجاتے ہیں۔
اس کے برعکس کامیاب لوگ مفروضوں کے جال میں نہیں پھنستے۔
وہ خوابوں اورجھوٹے سہاروں پر نہیں، بلکہ ٹھوس بنیادوں پر زندگی جیتے ہیں۔ ان کا طرزِ عمل مفروضوں میں پناہ ڈھونڈنے والے لوگوں سے مختلف ہوتا ہے۔ یہ لوگ جانتے ہیں کہ دنیا میں کوئی چیز مکمل اور آسان نہیں ہوتی۔اس لیے وہ زندگی کی سختیوں کو مانتے ہیں اور ان کا بہادری سے سامنا کرتے ہیں۔ وہ حالات سے لڑنے کے بجائے اُن کے ساتھ چلنا سیکھتے ہیں۔ یہ لوگ اپنی زندگی کی مکمل ذمہ داری قبول کرتے ہیں۔ اگر کوئی کام ان کی سوچ کے مطابق نہیں ہوتا تو وہ قسمت یا دوسروں کو الزام نہیں دیتے، بلکہ اپنا جائزہ لیتے ہیں۔ وہ کامیابی یا ناکامی کو اپنے فیصلوں کا نتیجہ سمجھتے ہیں۔
کامیاب افرادکی ایک اور خوبی یہ ہے کہ وہ سیکھنے کا عمل کبھی بند نہیں کرتے۔ وہ کبھی یہ نہیں کہتے کہ ”مجھے سب پتا ہے“، بلکہ ہمیشہ کچھ نیا سیکھنے، سوال کرنے اور خود کو بہتر بنانے میں لگے رہتے ہیں۔ وہ سیکھنے کو اپنی طاقت سمجھتے ہیں۔ یہ لوگ غلطیوں سے گھبراتے نہیں۔ ان کے نزدیک غلطی کوئی گناہ نہیں بلکہ تجربہ ہے۔ وہ جانتے ہیں کہ جو گر کر سیکھتا ہے، وہ مضبوطی سے کھڑا ہوتا ہے۔
سب سے اہم بات یہ ہے کہ کامیاب لوگ عمل کو باتوں پر فوقیت دیتے ہیں۔ وہ غیر حقیقی تصورات میں نہیں جیتے۔ ان کی سوچ عمل سے جڑی ہوتی ہے۔ وہ جانتے ہیں کہ باتوں سے کچھ نہیں بدلتا، تبدیلی صرف عمل سے آتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ مفروضوں کی دنیا سے نکل کر حقیقت کے میدان میں کامیابی حاصل کرتے ہیں۔
ذیل میں ایسے مفروضوں کوبیان کیاجارہا ہے جن میں معاشرے کے اکثرافراد پھنسے ہوئے ہیں۔
”میں تبھی کامیاب ہو سکتا ہوں جب حالات سازگار ہوں“
یہ سوچ انسان کی اندرونی کمزوری یا خوف کا نتیجہ ہوتی ہے۔ جب انسان کسی نئی راہ پر چلنے سے ڈرتا ہے تو وہ حالات کا بہانہ بنا کر خود کو تسلی دیتا ہے۔ مثلاً: ”اگر میرے پاس وسائل ہوتے تو میں بھی کامیاب ہوتا“۔یادرکھیں کہ کامیابی کا تعلق حالات سے کم اور ذاتی رویے، محنت اور تسلسل سے زیادہ ہے۔ دنیا کے کئی کامیاب لوگوں نے انتہائی ناموافق حالات میں ترقی کی ہے۔
اس سوچ کا نقصان یہ ہے کہ یہ انسان کو عمل سے روکتی ہے، جس کی وجہ سے وہ موجودہ وسائل میں بہتر کام کرنے کی کوشش نہیں کرتا۔ وہ خود کو حالات کا محتاج سمجھتا ہے، جس سے اس کی خود اعتمادی متاثر ہوتی ہے۔آہستہ آہستہ یہ سوچ اس کی شخصیت میں مستقل منفی رویہ پیدا کر دیتی ہے، اور وہ ہر کام میں رکاوٹ تلاش کرنے لگتا ہے۔ ایسا شخص نیا قدم نہیں اٹھاسکتا، کیوں کہ وہ کسی مثالی اوربہترین وقت کے انتظار میں رہتا ہے جو کبھی نہیں آتا۔
”کامیابی صرف قسمت سے ملتی ہے“
یہ سوچ اکثر ان لوگوں میں پائی جاتی ہے جو مسلسل ناکامی کا سامنا کرتے ہیں اور اپنے آپ کا جائزہ لینے کے بجائے قسمت کو مورد الزام ٹھہراتے ہیں۔ معاشرتی تصورات بھی بعض اوقات اس خیال کو مضبوط کرتے ہیں۔جب کہ حقیقت یہ ہے کہ کامیابی کے حصول میں قسمت عنصر کاکردارادا کرتاہے لیکن اصل کامیابی محنت، مہارت، مستقل مزاجی اور درست فیصلوں سے ملتی ہے۔قسمت اُن کا ساتھ دیتی ہے جو اپنے لیے کچھ کرناچاہتے ہیں۔
اس سوچ کانقصان یہ ہے کہ ایسے لوگ خود کو ناکامی کا شکار سمجھ کر کوشش کرنا ہی چھوڑ دیتے ہیں۔ جب انسان یہ سمجھے کہ سب کچھ قسمت کی وجہ سے ہے تو وہ اپنی کوتاہیوں کو تسلیم نہیں کرتا۔اس سوچ کی وجہ سے وہ دوسروں سے حسد کرنے لگتاہے۔ایسے لوگ اکثر ذہنی الجھن، احساس کمتری اور بے چینی کا شکار رہتے ہیں۔
”اگر میں غلطی کروں گا تو لوگ ہنسیں گے“
معاشرے میں بہت سے لوگ غلطی کو شرمندگی سمجھتے ہیں۔ بچپن سے ہی بچوں کو غلطی پر ڈانٹ کر، یا دوسروں کے سامنے شرمندہ کر کے سکھایا جاتا ہے، جس سے ان کے اندر یہ خوف بیٹھ جاتاہے کہ اگر میں نے غلطی کی تولوگ مجھ پر ہنسیں گے۔جب کہ حقیقت یہ ہے کہ غلطی کرنا انسانی فطرت ہے اور کامیاب انسان اپنی غلطیوں سے ہی سیکھتے ہیں۔ جو انسان کبھی غلطی نہیں کرتا وہ سیکھنے کے سب سے اہم راستے سے محروم رہتا ہے۔
اس سوچ کا نقصان یہ ہے کہ ایسے لوگ مضبوط فیصلہ نہیں کر پاتے، کیوں کہ ان کا دھیان نتائج سے زیادہ دوسروں کی رائے پر ہوتا ہے۔ وہ نئے تجربات یا رکاوٹوں سے بچتے ہیں، جس سے ان کی ترقی رُک جاتی ہے۔چوں کہ یہ لوگ خطرات سے بچنے کی کوشش کرتے ہیں اس لیے ان کے اندر قائدانہ صلاحیتیں پیدا نہیں ہوتیں اور اسی وجہ سے یہ دوسروں سے بہت پیچھے رہ جاتے ہیں۔
”میرے پاس وقت نہیں ہے“
یہ عام بہانہ بن چکا ہے۔ بہت سے لوگ اپنی ناکامیوں اور تاخیر کی وجہ اپنی سستی کو نہیں بلکہ وقت کی کمی کو قرار دیتے ہیں۔ دراصل فرد اپنی نااہلی یا غلط عادات کو چھپانے کے لیے اس سوچ کا سہارا لیتا ہے۔ ہر انسان کے پاس 24 گھنٹے ہوتے ہیں۔ فرق صرف ترجیحات اور وقت کی ترتیب کا ہے۔ جو لوگ اپنی ترجیحات درست رکھتے ہیں، وہ ان گھنٹوں میں بڑی کامیابیاں حاصل کرتے ہیں۔
اس سوچ کا نقصان یہ ہے کہ ایسا شخص سیکھنے اور ترقی کے مواقع سے محروم ہو جاتا ہے۔ یہ بہانہ اسے غیر فعال بنا دیتا ہے اور وہ روزمرہ کے معمولات کو بہتر بنانے کی کوشش ہی نہیں کرتا۔ ایسے لوگ وقت کی منصوبہ بندی نہیں کرتے جس کی وجہ سے ان کی زندگی بے ترتیب ہو جاتی ہے۔ جب انسان خود کو وقت کی کمی کا شکار سمجھے تو وہ دوسروں سے کام کرنے کی توقع کرنے لگتا ہے جس سے اس کی خودمختاری کمزور ہوجاتی ہے اور وہ دوسروں پر انحصار کرنے لگتا ہے۔
یقین، رویہ اور سوچ وہ بنیادہے جس پر کامیابی کی عمارت کھڑی ہوتی ہے۔ لیکن جب یہ بنیاد جھوٹے عقائد، مفروضوں اور سنی سنائی باتوں پر استوار ہو تو ترقی کا ہر دروازہ بند ہوجاتا ہے۔ دنیا کے کامیاب ترین لوگ انہی وہم و گمان کی زنجیروں کو توڑ کر آگے بڑھے۔ نیلسن منڈیلا کہتاہے کہ ”کامیابی ناممکن لگتی ہے، جب تک وہ حاصل نہ ہو جائے۔“تھامس ایڈیسن اگریہ مان لیتا کہ“ناکامی قسمت کی نشانی ہے”تو دنیا بلب جیسی ایجادسے محروم رہتی۔
مفروضوں کی دنیا سے نکلیں، کامیابی ان لوگوں کے قدم چومتی ہے جو حقیقت کا سامنا کرتے ہیں، جو سیکھتے ہیں، گر کر سنبھلتے ہیں اور بار بار کوشش کرتے ہیں۔ اپنے اندر جھانکیں، اپنے مفروضوں کو پہچانیں اور انھیں توڑ ڈالیں۔ کیوں کہ کامیابی اسی کوملتی ہے جو جھوٹے تصور کو مسترد کر کے، سچائی کی بنیاد پر نئی دنیا تعمیر کرتا ہے۔ یاد رکھیں: آپ کے سب سے بڑے دشمن وہ مفروضے ہیں، جن پر آپ خاموشی سے یقین رکھتے ہیں۔
Comments
Post a Comment