Life and death : -

                                                       



 -:زندگی اور موت

اس قصے سے یہ بتانا مقصود ہے کہ بعض اوقات لوگ جس چیز کو ہلاکت کا سبب سمجھتے ہیں۔ وہ کامیابیوں کا سبب بن جاتی ہے۔ قصبہ رَے میں جہاں کے امام فخرالدین رازی رحمۃ اللّٰه علیہ تھے ایک مسجد تھی۔ کوئی شخص رات کے وقت اُس میں موت کے ڈر کی وجہ سے سوتا نہیں تھا۔ کوئی کہتا کہ اُس میں جادو ہے جس کی وجہ سے رات کو اُس میں ٹھہرنے والا مارا جاتا ہے۔ کوئی کہتا پریاں ہیں جو رات کو قتل کر دیتی ہیں۔ کوئی کہتا کہ مسجد کو تالہ لگا دیں تاکہ کوئی مسافر غلطی سے اُس میں نہ سو جائے۔ ایک مہمان وہاں ٹھہرنے کے لئے آگیا اور اُس نے مسجد کے بارے میں یہ سب باتیں سنیں۔ وہ بہادر تھا اُس نے سوچا کہ آزمانا چاہئے۔ اگر میرا جسم ہلاک بھی ہو گا تو کیا مضائقہ ہے اصل روح تو باقی رہ جائے گی۔ قرآن میں اللّٰه نے حضرت آدم علیہ السلام کے بارے میں فرمایا ونَفَخْتُ فِيهِ مِنْ رُوحِی یعنی آدم میں مَیں نے اپنی روح پھونک دی۔ اگر جسم فنا ہو گیا تو وہ اللّٰه کی پھونک تو باقی رہے گی تو میں پھر  حق کی صورت زندہ رہوں گا اور جب تک اُس کے صور کا نفخہ اس عالم میں آئے گا تو پھر یہ میرے تن سے وابستہ ہو جائے گا میں روح کو تن سے جدا رکھنا چاہتا ہوں کیونکہ اس حق کے لئے یہ جسم بہت تنگ جگہ ہے۔

قرآن میں یہود کو اللّٰه تعالیٰ نے فرمایا "تم موت کی تمنا کرو اگر سچے ہو " انہوں نے یہ تمنا نہ کی۔ میں اللّٰه کی محبت اور ولایت میں سچا ہوں اس لئے موت کا متمنی ہوں۔ لوگوں نے اُسے سمجھایا کہ اس مسجد میں جو کوئی بھی رات کو سویا ہے وہ صبح مرا ہوا ملا ہے۔ ہم تمہاری بھلائی کے لئے یہ نصیحت کرتے ہیں کہ اس مسجد میں نہ ٹھر۔ اُس نے جواب دیا۔ اے ناصحوا میں دنیاوی زندگی سے پیٹ بھر چکا ہوں اور بے حس ہو چکا ہوں اور موت کا متلاشی ہوں۔ میں چاہتا ہوں کہ اس دنیا کی دوکان کے اوپر سے کود جاؤں اور معرفت خداوندی کی کان میں پہنچ جاؤں۔ پرندے کو پنجرے میں کچھ اچھا نہیں لگتا۔ پنجرے کا دروازہ ٹوٹنے پر وہ کس قدر خوش ہوتا ہے۔ البتہ وہ پرند جو اپنے پنجرے کے چاروں طرف بلیاں دیکھے تو وہ بے شک پنجرے میں ہی رہنا پسند کرلے۔ جالینوس یونان کا مشہور حکیم تھا اور چونکہ وہ محض علوم عقلیہ ہی سے واقف تھا اور آخرت کا اُسے کوئی علم نہیں تھا اس لئے وہ دنیا میں جیتے رہنے کا متمنی تھا۔ انبیاء اور اولیاءاللّٰه اس دنیا میں رہتے ہیں لیکن آخرت کے باغات کی سیر کر لیتے ہیں۔ اس لئے وہ اُس جہان سے بے نیاز ہیں۔ جس کے دل میں نور نہیں ہے وہ ایسا چوہا ہے جس نے صرف بلیوں کی آوازیں سن رکھیں ہوں اور چھپنے کی جستجو کرے اسی لئے وہ اس دنیا کو پسند کرتا ہے جو کہ چوہے کے بل کی طرح ہے۔ وہ اس دنیا میں رہ کر دنیا ہی کے ہنر سیکھنے پر اور دنیا کو سنوارنے پر ہی اکتفا کرتا ہے۔ وہ وہی پیشے اختیار کرتا ہے جس سے اس کی دنیا کی ترقی ہو اس لئے کہ اُسے عالم آخرت سے رغبت نہیں ہے۔ جسم کے پنجرے میں بلی اپنا پنجہ مرگی بخار ، پیچش، چیچک یا اور کسی بدنی بیماری کی صورت میں داخل کر دیتی ہے۔ یہ بلی موت ہی ہے اور امراض اُس کے پنجے ہیں۔ موت بیماریوں کے ذریعے اپنی طرف بلاتی ہے۔ انسان دوا کرنے کی مہلت چاہتا ہے اگر مرض نے مہلت دے دی تو دوا کے ذریعے آرام پہنچ جاتا ہے لیکن اگر وہ مہلت نہ دے تو فورا موت اپنی کاروائی کر دیتی ہے۔ انجام کار مرض کا پیادہ آجائے گا اور مہلت نہیں دے گا۔ اس لئے مناسب یہی ہے کہ اُس دربار میں حاضری کے لئے قبل از وقت تیاری کرلی جائے


Comments

Popular posts from this blog

HEY DUDE

The Sorting Of Life " The Execution"

The “Cognitive Behavior Theory “