Bani Israel pe Allah Ka Azab: -





 بنی اسرائیل کی تباہی کے اسباب

          بنى اسرائىل مىں پہلى خرابى جو آئى وہ ىہ تھى كہ ان مىں اىك شخص دوسرے سے ملتا تو اس سے كہتا: يَا هٰذَا! اِتَّقِ اللهَ وَدَعْ مَا تَصْنَعُ فَاِنَّهُ لَا يَحِلُّ لَكَ یعنی اے شخص!  اللہعَزَّ  وَجَلَّ سے ڈر اور اپنے كام سے باز آ كہ ىہ حلال نہىں۔ پھر دوسرے دن اس سے ملتا اور وہ اپنے اُسى حال پر ہوتا تو ىہ اُس کو اپنے ساتھ كھانے پىنے اور پاس بىٹھنے سے نہ روكتا۔ پس جب وہ ىہ کام کرنے لگے تو اللہ تعالىٰ نے ان كے دل باہم اىك دوسرے پر مارے كہ منع كرنے والوں كا حال بھى اِنہى خطا والوں كے مِثل ہوگىا۔ پھر فرماىا:  

لُعِنَ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا مِنْۢ بَنِیْۤ اِسْرَآءِیْلَ عَلٰى لِسَانِ دَاوٗدَ وَ عِیْسَى ابْنِ مَرْیَمَؕ-ذٰلِكَ بِمَا عَصَوْا وَّ كَانُوْا یَعْتَدُوْنَ (۷۸) كَانُوْا لَا یَتَنَاهَوْنَ عَنْ مُّنْكَرٍ فَعَلُوْهُؕ-لَبِئْسَ مَا كَانُوْا یَفْعَلُوْنَ (۷۹)   (پ۶، المائدة۷۸،  ۷۹)

ترجمۂ كنز الايمان:  بنى اسرائىل كے كافِر لعنت كىے گئے داود و عىسٰى بن مرىم كى زبان پر،  ىہ بدلہ ہے ان كى نافرمانىوں اور حد سے بڑھنے كا،  وہ آپَس مىں اىك دوسرے كو برے كام سے نہ روكتے تھے،  البتہ وہ سخت بُرى حركت تھى كہ وہ كرتے تھے۔



 ([5])




وَ اِمَّا یُنْسِیَنَّكَ الشَّیْطٰنُ فَلَا تَقْعُدْ بَعْدَ الذِّكْرٰى مَعَ الْقَوْمِ الظّٰلِمِیْنَ (۶۸)   (پ۷، الانعام۶۸)

ترجمۂ كنز الايمان:  اور اگر شىطان تجھے بھلا دے تو ىاد آنے پر ظالموں مىں مت بىٹھ۔

تفسىرِ احمدى میں ہے: ظالم لوگ بدمذہب فاسِق اور كافِر ہىں ان سب كے ساتھ بىٹھنا منع ہے۔ ([1])

نازک شیشیاں

          عورت مَوم کی ناک بلکہ رَال  (چیڑ کا گوند)  کی پڑیا بلکہ بارُود کی ڈبیا ہے، آگ كے ایک اَدْنیٰ سے لگاؤ میں بھَقْ سے ہوجانے  (یعنی فوراً جل جانے) والی ہے۔عقل بھی ناقص اوردین بھی ناقص اور طینت  (یعنی بنیاد)  میں کجی (ٹیڑھا پَن)  اور شہوت  (خواہشِ نفس)  میں مَرد سے سو حِصّہ بیشی (زائد)  اور صحبتِ بد کا اَثَرِ مُسْتَقِل مَردوں کو بگاڑدیتاہے۔ پھر ان نازُک شیشیوں کا کیا کہنا  جوخفیف (ىعنى معمولى سى) ٹھیس سے پاش پاش ہو جائیں۔ یہ سب مضمون یعنی ان عورات کا  ناقِصاتُ العقل وَالدِّین اور کج طبع اورشہوت میں زائد اور نازُک شیشیاں ہونا صحیح حدیثوں میں ارشاد ہوئے ہیں اور صحبتِ بد کے اَثَر میں تو بکثرت احادیثِ صحیحہ وارِد ہیں۔ ازاں جملہ یہ حدیثِ جلیل کہ مشکوٰۃِ حکمتِ نبوت کی نُورانی قندیل ہے۔فرماتے ہیں: اچھّے مُصَاحِب اور بُرے ہمنشین کی کہاوَت ایسی ہے جیسے مشک والا اور لوہار کی بھٹی کہ مشک والا تیرے لئے نفع سے خالی نہیں یا تَو تُو اس سے خریدے گا کہ خود بھی مشک والا ہوجائے گا ورنہ خوشبو تو ضرور پائے گا اور لوہار کی بھٹی تیرا گھر پھونک دے گی یا کپڑے جلادے گی یا کچھ نہیں تو اتنا ہوگا کہ تجھے بد بو پہنچے۔ اگر تیرے کپڑے اس سے کالے نہ ہوئے تو دُھواں تو ضَرور پہنچے گا۔ ([2])


جنّت ہر فحش بکنے والے پر حَرام ہے۔ ([3] یُونہی بے ضَرورت وحاجَتِ شرعیہ لوگوں سے فحش کلامی بھی ناجائز وخلافِحیا ہے۔رسول اللہ صَلَّی اللّٰہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم  (ارشاد) فرماتے ہیں: اَلْـحَيَاءُ مِنَ الْاِيمَانِ وَالْاِيمَانُ فِی الْـجَنَّةِ،  وَالْبَذَاءُ مِنَ الْـجَفَاءِ وَالْـجَفَاءُ فِی النَّار حَىا ایمان سے ہے اور ایمان جنّت میں ہے اور فحش بکنا بے اَدَبی ہے اور بے اَدَبی دوزخ میں ہے۔ ([4] مَا كَانَ الْفُحْشُ فِی شَیْءٍ قَطُّ اِلَّا شَانَهُ،  وَلَا كَانَ الْـحَيَاءُ فِی شَیْءٍ قَطُّ اِلَّا زَانَهُ فحش جب کسی چیز میں دخل پائے گا اسے عیب دار کردے گا اور حیا جب کسی چیز میں شامل ہوگی اس کا سنگار کردے گی








Comments

Popular posts from this blog

HEY DUDE

The “Cognitive Behavior Theory “

The Sorting Of Life " The Execution"