Badshah "king" and his responsibility within:

 


This kingdom is a disaster. I am always working. Neither day gets China If I am not happy, how can anyone else be happy with his life? He thought that I should see who the happiest person in my country is. Thinking this, he disguised himself at night and left the palace in search of a happy man.

First, he went to a merchant. The king asked him, "You must be living happily and peacefully?" The merchant replied, "I have a lot of wealth, but even this wealth cannot give me peace. If wealth would bring happiness and peace, I would not hesitate to buy. This wealth has ruined my life. My heirs have eyes on my property. They pray for my death. If they can, they should kill me for this wealth. Apart from this, thefts and robberies continue to happen every day. Well, this is also a life. I want to rest all the time like my neighboring merchant, that's the real life." 

After hearing the answer of both of them When the king was not satisfied, he met a senior officer of his government. He was promoted to a higher position a few days ago. To the King's question, he said, "It is my misfortune that I accepted this post. "The officers who worked with me earlier were my friends. This position has made him my subordinate. Now they are burning me. The happiness that came from this position also turned into dust. It seems that happiness is not in my destiny.

After hearing the officer's answer, the king went to a tailor's shop in his neighborhood and said to him, "You are looking for luxury?" The tailor said, "Sir, I am not at all happy with this job. Well, this is also a job. You sit in one place all day and sew clothes." This work kills me. But what should I do? This work has taken away my joy. See now but what can I do, it's a compulsion. This work has taken away my happiness. Now look at my neighbor, the officer. The king has given him a high position. Now he has peace and happiness as well as wealth. I wish I were that officer. As soon as the king heard the tailor's reply, he reached a village outside. 

The city when it started to rain. The king knocked on the door of a hut, and an elder came out and said to the king, 'Come inside.' The roof of the hut was several...It was dripping from places. Where the rainwater was dripping, the old man had put down empty tin cans. Water was falling into these boxes. "It seems that your financial condition is not good?" The king asked the elder. 

The elder said, "There is no such thing. I am very happy. Thanks be to Allah. "That he has given me everything. look This is my clean house. I have two oxen, one goat, five ducks and some chickens. From them I get milk, eggs and meat. I sell them. Bullocks are used for wells and ploughing. These are the companions of my solitude. There is a lot of grass here. There is also a pool. I also have some land in which I grow wheat and cotton. I also have a beautiful and small garden in my backyard. It has palm, banana and malt trees etc. I draw water from the well and give it to the fields and the garden. The rest of the time I heard the animals. Then I do Allah Allah in my spare time. I am living a very happy and peaceful life.

The king thought that along with happiness, even if there is a little pain, a person should bear it. Happiness without pain and suffering It doesn't happen. I have found the person I was looking for. The rain had stopped. 

The king returned to his palace and once again began to work diligently.


 یہ بادشاہت تو ایک مصیبت ہے۔ ہر وقت کام میں لگا رہتا ہوں۔ نہ دن کو چین ملتا ہے نہ رات کو آرام۔ بادشاہ ہونے کے باوجود میری زندگی میں خوشیاں نہیں ہے ۔ 

اگر میں خوش نہیں ہوں تو کوئی اور شخص کیسے اپنی زندگی سے خوش ہوگا ۔ اس نے سوچا کہ مجھے دیکھنا چاہیے کہ میرے ملک میں خوش انسان کونسا ہے 

یہ سوچ کر رات کے وقت اس نے بھیس بدلا اور خوش رہنے والے آدمی کی تلاش میں محل سے روانہ ہو گیا۔ سب سے پہلے وہ ایک سوداگر کے پاس گیا۔ 

بادشاہ نے اس سے پوچھا، "تم یقینا خوشی اور سکون کے ساتھ زندگی گزار رہے ہوگے؟" سوداگر نے جواب دیا، "میرے پاس بہت دولت ہے، مگر یہ دولت بھی مجھے سکون نہیں دے سکتی۔ اگر دولت سے خوشی اور سکون ملتا تو میں خریدنے میں دیر نہیں لگاتا۔ 

اس دولت نے میری زندگی اجیرن کردی ہے۔ میرے وارثوں کی نظریں میری جائیداد پر ہیں۔ وہ میرے مرنے کی دعائیں مانگتے ہیں۔ ان کا بس چلے تو وہ اسی دولت کے لیے مجھے جان سے مار دیں۔ اس کے علاوہ آئے دن چوری اور ڈاکے کا دھڑکا لگا رہتا ہے۔ 

رات دن اسی سوچ میں گھل رہا ہوں۔ میری صحت بھی متاثر ہورہی ہے۔ کاش میں غریب آدمی ہوتا۔ محنت مزدوری کر کے ایک جھونپڑے میں خوشی سے زندگی گزارتا۔ تب مجھے کسی قسم کی فکر نہ ہوتی۔ کیا ہی اچھا ہوتا کہ میں اپنے غریب پڑوسی کی طرح ہوتا۔ کتنا خوش رہتا ہے وہ۔بادشاہ اس کا جواب سن کر اس کے پڑوسی کے پاس پہنچا اور اس سے پوچھا، "تم اپنے اس حال میں خوش ہو؟" 

پڑوسی بولا، "میں تو اس سخت محنت اور مشقت سے تنگ آ گیا ہوں۔ بھلا یہ بھی کوئی زندگی ہے۔ میں چاہتا ہوں کہ اپنے پڑوسی سوداگر کی طرح ہر وقت آرام کرتا رہوں اصل زندگی تو یہی ہے۔" ان دونوں کے جواب سن کر بادشاہ کو تسلی نہ ہوئی تو وہ اپنی حکومت کے ایک بڑے افسر سے ملا۔ اسے چند روز پہلے ایک بڑے عہدے پر ترقی دی گئی تھی۔ 

بادشاہ کے سوال پر وہ بولا، "میری بدقسمتی ہے کہ میں نے یہ عہدہ قبول کر لیا۔ جو افسر میرے ساتھ پہلے کام کرتے تھے وہ میرے دوست تھے۔ اس عہدے نے انہیں میرا ماتحت بنا دیا ہے۔ 

اب وہ مجھ سے جلنے لگے ہیں۔ اس عہدے سے جو خوشی ملی تھی، وہ بھی خاک میں مل گئی۔ لگتا ہے خوشی میرے نصیب میں ہے ہی نہیں۔" بادشاہ افسر کا جواب سن کر اس کے پڑوس میں ایک درزی کی دکان پر پہنچا اور اس سے بولا، "تم تو عیش کرتے ہوگے؟" 

درزی بولا، "جناب میں اس کام سے ہرگز خوش نہیں۔ بھلا یہ بھی کوئی کام ہے۔ سارا دن ایک جگہ بیٹھے کپڑے سیتے رہو۔ اس کام سے تو میری جان جاتی ہے۔ مگر کیا کروں مجبوری ہے۔ اس کام نے میری خوشیاں چھین لی ہیں۔ اب دیکھیں میرے پڑوسی افسر کو۔ بادشاہ نے اسے بڑا عہدہ دیا ہے۔ اب اسے سکون اور خوشی بھی حاصل ہو گئی اور دولت بھی۔ کاش میں ہی وہ افسر ہوتا۔بادشاہ درزی کا جواب سن کر شہر کے باہر ایک دیہات میں پہنچا ہی تھا کہ بارش شروع ہو گئی۔ بادشاہ نے ایک جھونپڑے کا دروازہ کھٹکھٹایا تو اندر سے ایک بزرگ باہر آئے اور بادشاہ سے بولے، "اندر آ جاؤ۔" 

جھونپڑے کی چھت کئی جگہوں سے ٹپک رہی تھی۔ جہاں سے بارش کا پانی ٹپک رہا تھا، وہاں بزرگ نے ٹین کے خالی ڈبے نیچے رکھ دیے تھے۔ پانی ان ڈبوں میں گر رہا تھا۔ "معلوم ہوتا ہے تمہاری مالی حالت اچھی نہیں ہے؟" بادشاہ نے بزرگ سے پوچھا۔ 

بزرگ بولے، "ایسی کوئی بات نہیں ہے۔ میں بہت خوش ہوں۔ الله تعالیٰ کا شکر ہے کہ اس نے مجھے ہر چیز دی ہے۔ دیکھ لو۔ یہ میرا صاف ستھرا گھر ہے۔ میرے پاس دو بیل، ایک بکری، پانچ بطخیں اور کچھ مرغیاں ہیں۔ان سے میں دودھ، انڈے اور گوشت حاصل کرتا ہوں۔ ان کو میں بیچتا ہوں۔ بیل کنواں اور ہل چلانے کے کام آتے ہیں۔ یہ میری تنہائی کے ساتھی ہیں۔ یہاں گھاس بہت ہے۔ ایک تالاب بھی ہے۔ میرے پاس کچھ زمین بھی ہے جس میں میں گندم اور کپاس اگاتا ہوں۔ 

میرے گھر کے پچھواڑے میں میرا ایک خوبصورت اور چھوٹا باغ بھی ہے۔ اس میں ، کھجور، کیلے اور مالٹے وغیرہ کے درخت ہیں۔ کنویں سے پانی نکال کر کھیتوں اور باغ کو دیتا ہوں۔ باقی وقت میں جانور چراتا ہوں۔ پھر فرصت میں الله الله کرتا ہوں۔ میں بہت خوشی اور سکون سے زندگی گزار رہا ہوں۔

بادشاہ نے سوچا کہ خوشیوں کے ساتھ اگر تھوڑی تکلیف بھی ہو تو انسان کو برداشت کر لینی چاہیے۔ بغیر تکلیف اور دکھ کے راحت نصیب نہیں ہوتی۔ میں جس شخص کی تلاش میں تھا وہ مجھے مل گیا ہے۔ بارش تھم چکی تھی۔ بادشاہ اپنے محل میں واپس آگیا اور ایک بار پھر تن دہی سے کام کرنے لگا۔





No comments