The prince:

 



دی پرنس۔ ۔۔ نکولو میکیاولی 

قدیم اور موجودہ دنیا کے ھر دوسرے سیاستدان ،حکمران ،بادشاہ ،صدر ،وزیراوعظم کے لاڈلے دلارے " سیاسی گورو".😋😚 "میکیاولی" کی شاہکار تصنیف دی پرنس )  کا تعارف ۔ 

بقول محترم ستار طاہر (مرحوم) شیطانیت اور میکیاولی ایک ھی چیز کے دو نام اور ہم معنی سمجھے جاتے ہیں ۔۔ 

 قارئین دنیا کی متنازع ترین کتابوں میں سے ایک 

" The Prince"

کے خالق نکولو میکیاولی سے ہزار اختلاف کے باوجود بہرحال ہمیں یہ بات تسلیم کرنا پڑے گی کہ یہ میکیاولی ھی ھے جس نے سیاست کو آرٹ کا درجہ دیا اور جو سیاست کو سائنس بنانے کا خالق ھے ۔اس نے اس کتاب کے ذریعے گویا سیاست کا ایک نیا دروازہ کھول دیا ۔اس نے سیاست سے اخلاقیات اور مذہب کو مکمل خارج کردیا۔

اس نے حکمرانی کے لئے جو اصول پیش کئے اور جو درس دیا وہ اپنی جگہ کتنا ہی قابل نفرت اور قابلِ اعتراض کیوں نہ ھو اس کا بہرحال یہ ایک کارنامہ ھے کہ اس نے یہ اصول ہمیں دیا کہ سیاست کو خالص سیاسی معیار پر سمجھنا اور پرکھنا چائیے ۔

انسانی تاریخ پر ایک نظر ڈالی جائے تو یوں لگتا ھے کہ میکیاولی کی اس شاہکار کتاب کی اشاعت سے بہت  پہلے ھی قدیم دنیا کے حکمران اور پھر اس کے بعد  اور آج کی دنیا کے بھی اکثر سیاستدان / حکمران اس کتاب سے استفادہ کئے بغیر ھی حکمرانی کے "ان" تمام اصولوں پر کاربند چلے آرھے ہیں  ۔ذرہ اس کتاب میں یہاں بیان کئے گئے "اصول حکمرانی" کے صرف چند نقاط تو ملاحظہ فرمائیں اور خود فیصلہ کریں کہ آج کے امریکہ ،ھندوستان سعودی عرب سمیت دنیا کے بیشتر دوسرے ممالک میں آج جو جو حکمران اقتدار میں موجود ہیں کیا انھوں کے میکاولی کو ہی اپنا روحانی سیاسی مرشد تسلیم نہیں کیا ھوا ھے۔۔۔۔  ذرا پڑھئے تو  میکیاولی کے شیطانی ذہن کے چند نمونے ۔۔۔ 

1: میکاولی ظلم ،دھوکہ دہی ،تشدد ،فریب کاری، وعدہ خلافی اور طاقت کے بے تہاشہ استعمال کو جائز قرار دیتا ھے اور وہ ایسے تمام حربوں کا دفاع  بھی بڑی خوبصورتی اور مکاری سے کرتا ھے ۔

2: میکیاولی کہتا ھے ۔۔۔ ایک بادشاہ یا حکمران کے لئے مذہبی آدمی ھونا ضروری نہیں لیکن اسے اپنے اقتدار کو برقرار رکھنے کے لئے ضروری ھے کہ وہ لوگوں کو دھوکہ دے اور یہ ظاہر کرے کہ وہ مذہبی آدمی ھے ۔وہ مذہبی استحصال کو اقتدار قائم کرنے اور مستحکم بنانے کا ایک طاقتور وسیلہ بتاتا ھے ۔وہ کہتا ھے کہ فوج کے سپاہیوں کے عزم کو بھی مذہبی حوالے سے مضبوط بنایا جاسکتا ھے ۔

3: میکیاولی کے نزدیک برائی یا اچھائی دونوں چیزیں سیاسی کامیابی اور حکمرانی کے لئے بے معنی حیثیت رکھتی ہیں ۔۔اصل چیز اقتدار ھے جسے ھر طرح قائم رکھنے کا حکمران کو حق حاصل ھے۔بادشاہ یا حکمران کو طاقت کے ذریعے کامیابی حاصل کرنی چائیے اور ان سب کو تباہ اور نیست و نابود کردینا چائیے جو اسے نقصان پہنچا سکتے ھوں۔

4: لڑائی کے دو طریقے ہیں ۔ایک قانونی دوسرا طاقت ۔پہلا راستہ انسانوں کا ھے اور دوسرا درندوں کا لیکن چونکہ پہلے طریقے کو اپنا کر کبھی مکمل کامیابی حاصل نہیں ھوتی اس لئے دوسرا طریقہ اختیار کرنا چاہیے۔اس لئے حکمرانوں کے لئے یہ جاننا ضروری ھے کہ بیک وقت کس طرح انسان اور درندے کی خصوصیات سے استفادہ کیا جاسکتا ھے ۔

5: ایک حکمران کو اپنے اندر شیر اور لومڑی کی خصوصیات یکجا کرنی چائیے۔

6:وہ حکمران کبھی صاحب اختیار اور اقتدار نہیں رہ سکتا جو خود یہ اعتراف کرنے لگے کہ اس نے اپنے وعدہ پورے نہیں کئے ۔وعدے سے انحراف اور وعدہ شکنی اختیار کے مفاد میں ھے تو اس کے اعتراف کی ضرورت نہیں۔

7: حکمران کو اپنے اصل ارادوں اور عزائم کو چھپا کر رکھنا چائیے ۔۔عوام الناس بہت سیدھے اور بےوقوف ھوتے ہیں وہ آسانی سے فریب کھا جاتے ہیں اور جب تک حکمران خوبصورتی اور سلیقے سے ان کو فریب دیتا رھے گا ۔۔وہ فریب کھاتے رہیں گے ۔حکمران کو چائیے کہ کہ وہ مذہب، انسانی وقار ،ایمان و اعتقاد اور انسانیت کے خلاف اپنی زبان سے کوئی لفظ نہ نکالے ۔۔اسے یوں ظاہر کرنا چائیے کہ وہ سراپا عفو و رحم ھے ۔۔عوام کی اکثریت صرف ظاہر تک ھی پہنچ سکتی ھے وہ چھوکر محسوس نہیں کر سکتی اور اس طرح سے وہ مسلسل بےوقوف بنی رہتی ھے  ۔۔

8:ایک حکمران جو ظلم و فریب کاری ،چالاکی  اور مکاری کو اپناتا ھے وہ ایسا کرنے کا پورا پورا حق رکھتا ھے ۔رعایا اور عوام کی شرپسندی اور دھوکہ دہی کے مقابلے میں حکمران کی فریب کاری اور جعل سازی افضل ٹھہرتی ھے ۔۔اقتدار کی بحالی کے لئے ھر جائز و ناجائز حربہ درست ھے ۔

9: کوئی بادشاہ یا حکمران اپنی ذاتی خوبیوں اور صلاحیتوں کے بل بوتے پر اپنے اقتدار اور اختیار کو قائم نہیں رکھ سکتا ۔۔طاقت کا استعمال ناگزیر ھے۔

میکیاولی کے بارے میں  جو مرضی اپ کے  دل میں آئے اس سے جتنی چائے نفرت کیجیے --اصول حکمرانی بارے اس کے خیالات کو رد کردیں مگر دل پر ھاتھ رکھ کر ذرا یہ تو  بتائیں ۔۔کیا یہ کڑوا سچ نہیں ھے کہ اس نے اقتدار اختیار اور حکمرانی کے جو اصول وضع کئے اور ان اصولوں کو  نفرت آمیز اور گھناؤنے سمجھنے کے باوجود ۔۔اج کی دنیا اور اس سے پہلے کی دنیا کے بیشتر سیاستدان اور حکمران ان ہی پر عمل نہیں کرتے رھے اور کر رھے ہیں ۔۔  

No comments